قرآن نے پوری انسانیت کو قرآن کی ایک سورۃ کی مثل لانے کا چلنج کیا۔ مگر کوئی انسان اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔ دشمنانِ اسلام و دین کو یہ امر نہایت گراں گزرا اور انہوں نے اپنے خیالی شبہارت کے ذریعے قرآن کریم کو اس کے بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے فاسد مذہب کی تائید کرسکیں۔
بہتر ہے کہ ہم ذیل میں وہ شبہات بیان کریں جن پر انہوں نے اپنا وقت ضائع کیا ہے تاکہ ان دشمنان قرآن و اسلام کی علمی سطح سامنے آجائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ خواہشات نفسانی انہیں کس طرح گمراہ کن راستوں اور ہلاکتوں کے گڑھے میں پھینکتی ہیں۔
قرآن کی کچھ باتیں بلاغت کے اعتبار سے معیاری نہیں ہیں کیونکہ وہ عربی قواعد کے خلاف ہیں اور ایسی باتیں معجزہ نہیں ہو سکتیں۔
یہ اعتراض دو لحاظ سے باطل ہے:
اولاً: قرآنِ کریم فصحاء و بلغاء عرب کے درمیان نازل ہوا اور ان کو ایک سورۃ تک کے مقابلے کا چیلنج کیا اور یہ بھی اعلان کردیا کہ چاہے سب ملک کر اس کے مقابلے میں آجائیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ اگر قرآن میں کلام و قواعدِ عرب کے خلاف کوئی بات ہوتی تو عرب بلغاء جو اسلوب لغت اور اس کی خصوصیات سے آگاہ تھے، فوراً اس کی نشاندھی کرتے، اسے قرآن کے خلاف حجّت و دلیل قرار دیتے اور انہیں زبانوں اور تلواروں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر قرآن میں ایسی کوئی بات ہوتی تو تاریخ اسے محفوظ کرلیتی۔ اسے دشمنانِ اسلام تواتر کے ساتھ نقل کرتے اور اس کا چرچا ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کسی بات کو خبرِ واحد بھی نقل نہیں کیا گیا۔