2%

تیسرا اعتراض

کوئی بھی انسان جو عربی لغت سے آشنائی رکھتا ہو، الفاظ قرآن میں سے کسی کلمہ کی مثل پیش کرسکتا ہے۔ جب ایک کلمے کی مثل لانا ممکن ہے تو پورے قرآن کی مثل بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ مثلوں (یکساں چیزوں) کاحکم ایک ہی ہوا کرتا ہے۔(۱)

جواب:

یہ ایسا اعتراض ہے جو ذکر اور شمار میں لانے کے قابل ہی نہیں۔ کیونکہ کلمات قرآن میں سے ایک کلمہ، بلکہ جملوں میں سے ایک جملہ کے مثل لانے پر بھی قادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ پورے قرآن یا ایک سورۃ کی مثل لانے پر بھی قادر ہو، کیونکہ مواد اور مفردات پر قادر ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ترکیب پر بھی قادر ہو۔

اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ ہر انسان دو تین ا نٹییں جوڑ سکتا ہے اس لیے وہ پوری عمارت بنانے پر بھی قادر ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا کہ چونکہ ہر عرب ایک کلمہ مفردات بنانے کی قدرت رکھتا ہے اس لیے وہ خطبے اور قصیدے بھی کہہ سکتا ہے اور یہی شبہ و اعتراض اس کا باعث بنا کہ نظام (نامی شخص) اور اس کے تابعین اعجازِ قرآن کے بارے میں صرفہ(۲) کے قائل ہوگئے اور یہ قول و نظریہ انتہائی ضعیف ہے کیونکہ:

____________________

(۱) اگر یکساں چیزوں میں سے ایک جائز ہے تو دوسری بھی جائز ہوگی اور اگر ایک ناجائز ہے تو دوسری بھی ناجائز ہوگی۔ (مترجم)

(۲) یعنی انسان تو قرآن کی نظیر لانے پر قادر ہے مگر خدا اس میں مانع ہے۔