اگر اعجام قرآن مان بھی لیا جائے پھر بھی نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت ثابت نہیں ہوتی جن پر یہ نازل ہوا ہے، کیونکہ قرآن کے قصّے اور واقعات عہد جدید و قدیم کے قصّوں اور واقعات سے مختلف ہیں جن کا وحی الہٰی ہونا تواتر سے ثابت ہے۔
قرآن کی طرف سے عہد جدید و قدیم کی کتب میں موجود خرافات اور بے ہودہ قصّوں ہی کی وجہ سے ان کے وحی الہٰی ہونے میں باقی ماندہ شک بھی دُور ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن خرافات، شبہات اور ان باتوں سے پاک ہے جن کی خدا اور
انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے نسبت دینا عقلی طور پر جائز نہیں ہے اس بناء پر قرآن کا کتبِ عہدین کے خلاف ہونا ہی اس کے وحیِ الہٰی ہونے کی دلیل ہے۔ ہم گذشتہ مباحث میں کتبِ عہدین میں موجود خرافات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔
قرآن کریم تضاد کا شکار ہے۔ لہٰذا وحی الہٰی نہیں ہوسکتا ان کے خیال میں یہ تضاد بیانی دو جگہ کی گئی ہے۔
پہلی جگہ: خدا کا یہ فرمان:
( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ ) ۳:۴۱
''ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارے سے۔،،
اس آیت کے متضاد ہے:
( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ) ۱۹:۱۰
''حکم ہوا تمہاری پہچان یہ ہے کہ تم تین رات (دن) برابر لوگوں سے بات نہیں کرسکو گے۔،،