دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔
اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔
ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔