اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔
اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔
ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔
ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔