2%

تمہید

سات مشہور قراءتوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ علماء اہل سنت میں سے بعض کی یہ رائے ہے کہ سب قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہیں۔ بعض لوگ اس قول کو ان کا مشہور قول قرار دیتے ہیں۔ علامہ ''سبکی،، سے تو یہ قول منقول ہے کہ دس قراءتیں متواتر ہیں۔(۱) بعض علماء اہل سنت تو حد سے بڑھ گئے اور اپنے زعم میں یہ کہا کہ جو یہ کہے کہ ان سات قراءتوں میں تواتر لازم نہیں اس کا یہ قول کفر ہے، اور یہ قول مفتی اندلس ''ابو سعید فرج ابن لب،، سے منسوب ہے۔(۲)

امامیہ کے نزدیک یہ قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ بلکہ بعض قراءتیں تو قاری کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور بعض قراءتیں خبر واحد(۳) کے ذریعے منقول ہیں۔ اس قول کو اھل سنت کے بعض علاء نے بھی اختیار کیا ہے اور بعید نہیں کہ یہ قول ان میں بھی مشہور ہو۔ ہمارے نزدیک یہی قول (قراءت کا متواتر نہ ہونا) صحیح ہے۔

اس مطلب کی تحقیق سے قبل دو چیزوں کا ذکر ضروری ہے:

اوّل: مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ےہ کہ قرآن مجید صرف تواتر(۴) کے ذریعے ہی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پر بہت سے علماء شیعہ و سنی نے یوں استدلال کیا ہے:

قرآن ایسی کتاب ہے جس کے نقل کئے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ یہ دین اسلام کی اساس و بنیاد

____________________

(۱) مناھل العرفان، زرقائی، ص ۴۳۳۔

(۲) ایضا، ص ۴۲۸۔

(۳) خبر واحد وہ خبر ہے جس کو نقل کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہو کہ اس سے یقین حاصل ہوسکے۔

(۴) خبر متواتر وہ خبر ہے جسےنقل کرنے والوں کی اتنی کثرت ہو کہ اس خبر کی صداقت کا یقین ہو جائے۔