پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قراءت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔
۳۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ''قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(۱)
بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:
لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔
____________________
(۱)الاتقان، ج ۱، نوع ۳۷، ص ۲۳۰۔