جمع قرآن کے سلسلے میں واقع ہونے والے حالات سے اخذ کی ہے۔،،(۱)
طبرسی نے ''مجمع البیان،،میں تحریف قرآن کے قول کو سنیوں کے ایک مذہب ''حشویہ،، کی طرف نسبت دی ہے۔
مؤلف: عنقریب آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نسخ تلاوت عیناً تحریف ہے۔ بنابرایں نسخ تلاوت کے نظریہ، جو علماء اہل سنت میں مشہور ہے، کا لازمہ ہے کہ تحریف کا نظریہ بھی مشہور ہو (یعنی جس کے نزدیک نسخ تلاوت مشہور ہے اس کے نزدیک تحریف قرآن بھی مشہور ہوناچاہیے)۔
۳۔ نسخ تلاوت
اکثر علماء اہل سنت نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض قرآن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض راویات میں وارد شدہ اس مفہوم: ''اءنہ کان قرآناً علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انہوں نے نسخ تلاوت سمجھا ہے۔ پس ہمارے لیے مناسب ہے کہ اس قسم کی روایات کا ذکر کریں تاکہ واضح ہوجائے اس قسم کی روایات کو مان لینا تحریف قرآن کو ماننے کے مترادف ہے:
۱۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:
''خدا نے محمدؐ ک وبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یا دیا۔ اسی لیے جب رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئے کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا او رلوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:أن لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم یا وہ اس طرح تھی:ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم ۔(۲)
____________________
(۱) اعجاز القرآن، ص ۴۱۔
(۲) صحیح بخاری، ج ۸، ص ۲۶۔ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۱۶۔