8%

نماز میں سورتوں کی اجازت

۴۔ عدم تحریف کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ ائمہ (ع) نے واجب نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم ایک مکمل سورۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور نماز آیات میں ایک مکمل سورۃ یا زیادہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر رکوع سے پہلے ایک حصہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور جب سے شریعت میں نماز کااعلان کیا گیا ہے یہ احکام ثابت اور موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ائمہ نے تقیہ کے طور پر یہ احکام بیان فرمائے تھے، کیونکہ اس وقت تقیہ کا کوئی موقع نہیں تھا۔

بنابرایں جو حضرت تحریف کے قائل ہیں وہ ایسے سورے پر اکتفا نہیں کرسکتے جس میں تحریف کا احتمال ہو کیونکہ جس عمل کے واجب ہونے کا یقین ہو اس کی ادائیگی کا یقین حاصل کرنا واجب ہے (اور جس سورۃ میں بھی تحریف کا احتمال ہو اس کو پڑھ کر یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ واجب ادا ہوگیا ہے، کیونکہ ممکن ہے تحریف شدہ سورۃ پڑھا گیا ہو)۔

کبھی تحریف کے قائل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورۃ پڑھنا واجب ہی ہیں ہے، اس لیے کہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کے بعد انسان یہ یقین حاصل نہیں کرسکتا کہ اس نے ایک مکمل سورہ پڑھ لیا ہے۔ جب ایسا یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو واجب بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خداناممکن کام کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔

یہ دعویٰ تب درست ہوگا جب قرآن کی تمام سورتوںمیں تحریف کااحتمال ہو۔ لیکن اگر قرآن میں ایسی سورتیں موجود ہیں جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو، جیسے سورۃ توحید ہے، تو مکلف پر واجب ہے کہ وہ سورۃ توحید کے علاوہ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے۔ اگرچہ ائمہ (ع) نے قرآن سے ہر سورۃ کے پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن تحریف کے قائل اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ گو تحریف کی وجہ سے ائمہ (ع) کی اجازت سے قبل ہر آیہ پڑھنا جائز نہیں تھا لیکن ائمہ (ع) کی اجازت کے بعد کسی بھی سورہ کو پڑھا جاسکتا ہے۔