اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں تحریف ضرور واقع ہوئی ہوگی ورنہ اس حدیث کا معنی صحیح نہ ہوگا۔
i ۔ ایسی روایات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سب کی سب خبر واحد ہیں جو باعث علم و عمل نہیں ہوسکتیں ان کے متواتر ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے اور کتب اربعہ (اصول کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار) میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہونے اور قرآن میں تحریف ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے (تورات میں تحریف ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن میں بھی تحریف ہو)۔
ii ۔ اگر یہ دلیل درست ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں اضافہ بھی ہوا ہو جس طرح تورات و انجیل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔
iii ۔ گذشتہ امتوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس امت میں رونما نہیں ہوئے۔ مثلاً بچھڑے کی پوجا کرنا، بنی اسرائیل کا چالیس سال سرگداں رہنا، فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا، حضرت سلیمانؑ کا جن و انس پر حکومت کرنا، حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف لے جانا، حضرت موسیٰ! کے وحی حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے پہلے وفات پانا، حضرت موسیٰؑ سے نو معجزات رونما ہونا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت،گذشتہ اقوام میں سے بہت سی قوموں کا بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات ایسے ہیں جوگذشتہ اقوام میں تو واقع ہوئے ہیں لیکن اس اُمّت میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معصومؑ کی مراد ہو نہیں جو ظاہری طور پر روایات سے سمجھی جاتی ہے۔ لامحالہ ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس امت کو گذشتہ امتوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ہر واقعہ میں نہیں۔