2%

جمع قرآن وہ موضوع ہے جسے تحریفی حضرات اپنی دلیل قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت کا لازمہ (عام حالات میں) قرآن میں تحریف و تغییر ہے۔ اس بحث کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف اور تغییر سے پاک و منزّہ ہے۔

اس شبہ کا منشاان حضرات کا یہ گمان ہے کہ جب برئ معونہ میں ستر اور جنگ یمامہ میں چار سو قاری قتل ہو گئے تو اس طرح قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ چنانچہ قرآن کی بقا اور اس کے تحفظ کی خاطر حضرت ابوبکر کے حکم پر حضرت عمر اور زید بن ثابت نے کھجور کی ٹہنیوں، کپڑے کے ٹکڑوں، باریک پتھروں اور دو عادل گواہوں کی گواہی کے بعد لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنا شروع کردیا۔

جمع قرآن کی اس کیفیت کی تصریح بہت سی روایات میں کی گئی ہے۔ اس طریقے سے جمع کرنے والا انسان جب غیر معصوم ہو تو عموماً کوئی نہ کوئی چیز، آیہ وغیرہ، رہ جاتی ہے جس تک جمع کرنے والے کی دسترس نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کوئی انسان کسی ایک یا کئی شعراء کا کلام جمع کرنا چاہے جو متفرق اور بکھرا پڑا ہو تو کسی نہ کسی شعر یا بیت کے رہ جانے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ انسانی عادت کے مطابق یہ ایک قطعی اور یقینی امر ہے اور اگر یقین نہ ہو تو اس طرح جمع کرنے سے تخریف کا احتمال ضرور رہتا ہے کیونکہ یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ بعض ایسی آیات کی گواہی دو عادل نہ دے سکیں جو پیغمبر اکرم (ص) سے سنی گئی ہوں۔ بنا برایں یقین سے نہیںکہا جا سکتا کہ سارے کا سارا قرآن جمع کرلیا گیا ہے اور اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔

جواب

یہ شبہ اس بات پر مبنی ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت سے متعلق تمام روایات صحیح ہوں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم پہلے ان روایات کو بیان کریں اور اس کے بعد ان پر کئے جانے والے اعتراضات پیش کریں۔