2%

اولاً: یہ توجیہ جمع قرآن سے متعلق مذکورہ روایات کی تصریحات کیخلاف ہے۔

ثانیاً: اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ جب تک یہ کسی کے پاس لکھا ہوا نہ ملے وہ اسے قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اس کو ساقط (ترک ) کر دیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔

ثالثاً : جس بات کو لکھنا یا حفظ کرنا مقصود ہو اگر وہ متواترات میں سے ہو تو اسے ل کھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب تک متواتر نہ ہو کتابت اور حفظ کرنے سے قرآن ثابت نہیں ہوتا بہرحال کتابت اور حفظ کو جمع قرآن کی شرط قرار دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان روایات کو مسترد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ روایات تواتر کے بغیر بھی قرآن کے ثابت ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔

۶۔ احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

اگر یہ روایات صحیح ہوں اور ان کے ذریعے قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف پر استدلال کیا جائے تو انہی روایات کے ذریعے قرآن میں زیادتی کی صورت میں تحریف پر بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان روایات میں جمع قرآن کی جو کیفیت اور طریقہ بتایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو۔

اعتراض:قرآن میں زیادتی کو اس میں نقص اور کمی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی کسی آیہ یا سورہ کو قرآن سے نکال لینا آسان ہے لیکن قرآن میں کسی آیہ کا اضافہ کرنا مشکل ہے۔ ا س لئے کہ قرآن میں اعجاز کی حد تک فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اوراس کے پایہ کا کلام بنا کر اسے قرآن میں شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔