2%

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔