اس کے علاوہ متعہ کو حرام قرار دینے پر علماء کا اجماع ثابت بھی نہیں کیونکہ ایسے مسئلے پر اجتماع کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جس کے مخالف اصحاب نبی (ص) اور ان کے بعد کے دوسرے علماء کرام ہوں خصوصاً جب ان اصحاب پیغمبر (ص) کا قول ائمہ اہل بیت (ع) ، جن سے ہر قسم کے رجس و پلیدی کو خدا نے دور رکھا ہے ، کے قول کے مطابق ہو ان تمام بحثوںکا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ متعہ کو صرف حضرت عمر نے حرام قرار دیا ہے۔
یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ کتاب اللہ اور سنت پیغمبر (ص) دوسروں سے زیادہ اتباع و پیروی کے مستحق ہیں اور اسی لئے عبداللہ ابن عمر نے حج تمتع کی اجازت دے دی تھی اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا:
''کیف مخالف اباک و قد نهی عن ذلک : فقال لهم : ویلکم الاتتقون ۔۔۔۔۔۔افرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم احق انتتبعوا سنته ام سنة عمر ؟،، (۱)
''آپ اپنے والد کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں انہوں نے تو حج تمتع سے منع کر دیا ہے عبداللہ ابن عمر نے جواب میں کہا: مقام افسوس ہے تم خوف خدا نہیں رکھتے؟ سنت رسول (ص) قابل اتباع ہے یا سنت عمر؟،،
گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آیہ متعہ کے نسخ کے قائل حضرات جن چیزوں کا سہارا لیتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی آیہ متعہ کے حکم ، جس کا جواز شریعت اسلام میں قطعی طورپر ثابت ہے ، کیلئے ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
متعہ کی سزا۔۔۔۔۔۔سنگساری
بہت سی روایات ، جن میں سے بعض کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے ، سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے متعہ کرنے
والے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اس سلسلے کی پہلی روایت وہ ہے جسے جابر نے نقل کیا ہے۔
____________________
(۱) مسند احمد ، ج ۲ ، ص ۹۵