2%

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷