5%

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کی عقل اس فعل کو حسن سمجھتی ہے اور وجدان اس کی صحت کی گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ اس حکم میں فقراء کا فائدہ ہے اس لیے کہ صدقات کے مستحق یہی لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے رسول اللہ کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوجاتا اور یہ کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کی خواہش وہی شخص کرے گا۔ جسکے دل میں مال دنیا سے زیادہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے راز و نیاز کی محبت ہو۔

ظاہر ہے یہ عمل ایسا نہیں جو کسی زمانے میں حسن رکھتا ہو اور کسی زمانے میں حسن نہ رکھتا ہو بلکہ یہ ہمہ وقت اس مصلحت پر مشتمل ہے اور عقل اسے حسن کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ (امیر المومنین(ع) کے علاوہ) عام لوگوں نے مال کے لالچ میں آکر اور صدقے سے گھبرا کر رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کو ترک کردیا تھا۔

اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ سے راز و نیاز اورخلوت کی ملاقات کو ترک کرنے سے بہت سے عمومی مفادات اور مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کی خاطر اور عمومی مصلحت کو خصوصی مصلحت پر ترجیح دیتے ہوئے اللہ نے وجوب صدق کو اٹھا دیا اور لوگں کو نمام قائم کرنے زکوٰۃ دینے اور خداوند رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔

لا محالہ ماننا پڑے گا کہ پہلی آیت :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ ) ۔۔۔ الخ سے ثابت شدہ حکم (وجوب صدقہ) دوسری آیت: ع اشفقتم ۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ نسخ قرآن کی اقسام میں سے پہلی قسم ہے جس میں ناسخ آیت کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ منسوخ آیت میں موجود حکم کی مدّت ختم ہو گئی ہے۔ تاہم حکم اوّل کے نسخ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ اس میں موجود مصلحت، جو حکم کی متقاضی ہے، کسی خاص زمانے سے مختص ہے کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے یہ مصلحت رسول اللہ کی پوری زندگی میںموجود تھی لیکن لوگوں کی مال سے محبت اور صدقہ سے گھبرانے کے باعث یہ حکم باقی نہیں رہ سکا۔ اس طرح حکم اوّل نسخ ہوگیا اور وجوب برطرف ہوگیا۔