5%

کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب خداوند عالم جانتا تھا کہ لوگوں کی مال سے محبت کی وجہ سے یہ حکم ہمیشہ نہیں رہ سکے گا تو پھر اس حکم کی تشریع کیوں فرمائی؟ (صدقے کا حکم کیوں دیا گیا؟)ِ

جواب: اس حکم اور اس کے نسخ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کرنا چاہا اور ان پر حجت تمام کردی۔ اس کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امیر المومنین(ع) کے علاوہ باقی صحانہ نے مال دنیا کو رسول اللہ سے راز و نیاز کرنے پر ترجیح دی۔ اگرچہ رسول اللہ سے گفتگو ترک کرنا بذات خود کوئی معصیت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ مناجات (خلوت کی گفتگو) واجب نہیں تھی کہ اس کا ترک کرنا گناہ ہوتا اور صدقہ دینا اس صورت میں واجب تھا جب کوئی مناجات کرنا چاہے۔ اگر کوئی مناجات نہ کرنا چاہے تو صدقہ دینا بھی اس پر واجب نہیں تھا۔ اور ترک مناجات بھی گناہ نہیں تھا لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس شرط مناجات کو ترک کرے وہ مال دنیا کو مناجات کرنے سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حکم صدقہ کی حکمت

اس حکم کے صادر ہونے کے بعد اس کے نسخ ہو جانے سے اس کی حکمت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے یہ با ت بھی ثابت ہوگئی کہ لوگ رسول اللہ سے مناجات کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اس سے امیر المومنین(ع) کامقام اور عظمت بھی ثابت ہوگئی۔ چنانچہ آیہ کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے اور اکثر روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

لیکن اگر مناجات سے پہلے صدقے کا حکم ایک ظاہری حکم ہوتا جو صرف امتحان کے لیے صادر ہوا ہو۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس صورت میں دوسری آیت کے ذریعے پہلی آیت کا نسخ اصطلاحی نہ ہوگا بلکہ اس امتحانی حکم کے برطرف ہونے پر نسخ لغوی صادق آئے گا۔