تمہید
یہ ایک ناقابل انکا حقیقت ہے کہ تمام عالم ہستی حکومت اور قدرت الہٰی کے تحت چل رہا ہے۔ عالم امکان کی ہر شئی کے وجود کا دار و مدار خدا کی مشیئت اور ارادے پر ہے۔ اگر چاہے ایجاد فرماتا ہے اور اگر نہ چاہے ایجاد نہیں فرماتا۔
یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو روز ازل سے تمام اشیاء کا علم ہے اور خدا کے ازلی علم میں اشیاء عالم کو تعین علمی حاصل ہے اس علمی تعین کو کبھی تو قضائے الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی قدر الہی سے لیکن تقدیر الہٰی اور اشیاء کا علم ازلی ان کے ایجاد کی قدرت کے منافی نہیں۔ کیونکہ ہر ممکن کی ایجاد خدا کی مشیّت اور اس کے ارادے میں منحصر ہے۔ جسے کبھی اخیتار سے تعبیر کیا جاتا ہے اورکبھی ارادے سے۔ اگر ممکن، مورد مشیّت الہٰی قرار پائے تو وجود میں آئے گا ورنہ نہیں۔
تقدیر اور علم الہی، ہر چیز کی واقعی حالت کے م طابق ہوتا ہے۔ بایں معنی کہ اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کو ایجاد کرنا ہو تو علم و تقدیر الہی میں بھی یہ چیز موجود ہوگی اور اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کا ایجاد کرنا نہ ہو تو تقدیر اور علم الہی بھی اس کے مطابق ہوگا کیونکہ کسی چیز کا علم اور انکشاف اس چیز کی واقعی حالت سے مختلف نہیں ہوتا۔ اگر واقع مورد مشیت الہی ہو تو علم بھی اس کے مطابق ہوگا یعنی معلوم ایسی چیز ہوگی جس کی مشیت الہی متقاضی ہو۔ ورنہ یہ علم واقع کے مطابق نہ ہوگا اور نہ کسی شئی کا وقوع اور اس کی حقیقت کا انکشاف ہوگا۔
پس قضاء اور قدر الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز ازل سے اپنی واقعی حالت کے مطابق علم خدا میں مشخص و معین ہے یعنی ہر چیز کا وجود اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مورد مشیت و ارادہ الہی قرار پائے اور میشت و ارادہ الہی، اشیاء میں موجود مصلحت اور مفسدہ کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں اور مصلحت و مفسدہ، حالات و شرائط کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کسی چیز کی مصلحت یا اس کا مفسدہ علم الہٰی سے خارج نہیں ہوسکتا بلکہ علم الہی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔