کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔
( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴
''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،
تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔
کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔
کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟