2%

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔