2%

صحیح قول یہ ہے کہ ہیئت انشائیہ کو اس لئے وضع کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے انسان باطنی امور میں سے کسی کااظہار کرے ۔ یہی باطنی شئی کبھی تو اعتبارات میں سے ہوتی ہے جیسے امر، نہی عقود اور ایقاعات ہیں اور کبھی صفات میں سے ایک صفت ہوتی ہے جیسے کسی چیز کی تمنا اور امید رکھنا پس جملوں کی ہیتیں باطنی امور میں سے کسی نہ کسی شئی کی علامت اور نشانی ہوتی ہیں یہ شئی جملہ خبر یہ ہیں مقصد بیان اور خبر ہےاور جملہا نشائیہ میں کوئی اور چیز ہوتی ہے۔

جو جملہ اس باطنی امر کو ظاہر کرتا ہے ، کبھی اسے جملوں میں ذکر کرنے کا مقصد اس باطنی شئی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی اور عامل اور مقصدہواہے یہ بات محل بحث و اختلاف ہے کہ جملہ کا دوسر مقصد میں استعمال ہونا حقیقت ہے یا مجاز اس بحث کا یہ موقع نہیں ہے تفصیلی معلومات کیلئے ہماری تعلیقات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

کیا ''طلب ،، کلام نفسی ہے؟

لفظ ''طلب،، کے جائے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''طلب،، کسی شئی کو حاصل کرنے کے درپے ہونے کا نام ہے ''طلب الضالتہ،، یعنی گمشدہ چیز کو تلاش کیا اور ''طلب الآخرۃ،، یعنی آخرت کی تلاش ، اسی صورت میں کہا جائے گا جب انسان ان دونوں (گمشدہ چیز اور آخرت) کو حاصل کرنے کے درپے ہو چنانچہ لغت کی کتاب ''لسان العرب،، میں ہے۔

''الطلب محاوله وجدان الشئی واخذه،،

(یعنی) ''مطلب کسی شئی کو حاصل اور دریافت کرنے کی کوشش کا نام ہے،،۔

اس اعتبار سے آمر (حکم دینے والے) پر ''طالب،، صادق آئے گا کیونکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مامور (جس کا حکم دیا گیا ہو) وجود میں آ جائے اس لئے آمروہی ہوتا ہے جو مامور کو متعلق امر (ماموربہ) کو بجا لانے کی دعوت دیتا ہے اور یہی طلب کا مصداق ہے ایسا نہیں کہ امر کوئی لفظ ہو جس کا معنی طلب ہو بنا برایں اس قول کی کوئی اساس باقی نہیں رہتی کہ امر کو طلب کیلئے وضع کیا گیا ہے اور نہ اس بات کی کوئی اساس باقی رہتی ہے کہ ''طلب،، کلام نفسی ہے جس پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

اشاعرہ نے درست کہا کہ ''طلب،، اور ہے ''ارادہ،، اور ہے لیکنان کی یہ بات درست نہیں کہ ''طلب،، ایک باطنی صفت کانام ہے اور یہ کہ اس صفت باطنی پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔