کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں
گزشتہ بیانات سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا ہو گا کہ جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ میں کلام کی کوئی ایسی قسم نہیں جو نفس انسانی سے وابستہ ہوتا کہ وہ کلام نفسی کہلائے یہ بات ضروری ہے کہ ہر متکلم کیلئے ایجاد کلام سے پہلے اس کلام کا تصور کرنا ضروری ہے اور تصور نفس انسانی میں ایک قسم کے وجود کا نام ہے جس کو وجود ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کلام نفسی کے قائل حضرات کی مراد، نفس انسانی میں موجود یہی کلام ہو تو یہ بات اپنے مقام پر درست ہے لیکن یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ بات صرف کلام سے مختص نہیں بلکہ ہر فعل اختیاری کا تصور ، نفس انسانی میں موجود ہوتا ہے۔ کلام کاتصور بھی اس لئے ضروری ہے کہ یہ متکلم کا ایک فعل اختیاری ہے۔
کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل
کلام نفسی کے قائل حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات میں کئی دلائل دیتے ہیں۔
(۱) ہر متکلم ، تکلم سے پہلے کلام کو اپنے نفس میں ترتیب دیتا ہے اور خارج میں موجود کلام اس بات کاانکشاف ہے کہ اسی نوعیت کا ایک کلام ، نفس بھی موجود ہے اوریہ ایک واجدانی چیز ہے جسے متکلم اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے چنانچہ شاعر ''اخطل،، نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔
ان الکلام لفی الفوادوانما
جعل اللسان علی الفواد دلیلا
''(یعنی) کلام (حقیقی) تو نفس انسانی میں ہوتا ہے زبان تو صرف اس کلام نفسی کی نشاندہی کرتی ہے،،۔
اس دلیل کا جواب گزر چکا ہے یعنی نفس میں کلام کی ترتیب اس کات صور اور اسے نفس میں حاضر کرنا ہے اور یہی وجود ذہنی ہے جو تمام اختیارای افعال میں پایا جاتا ہے چنانچہ کاتب اور نقشہ کش کیلئے ضروری ہے کہ کتابت اور نقشہ کشی سے پہلے نقشہ اور مکتوب کاتصور کرے اس کا کلام نفسی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔