2%

سورۃ فاتحہ کا خلاصہ

پہلے اللہ نے ان اوصاف کے ذریعے اپنی ذات اقدس کی تعریف و توصیف فرمائی جن کات علق اس کی ذات اور افعال سے ہے اور یہ کہ وہ تمام عالم کا پروردگار ہے اور اس کی عام رحمت اس سے ہرگز جدا نہیں ہو سکتی اور روز محشر حکومت اسی کی ہو گی یہ اس سورہ کا پہلا مقصد تھا۔

اس کے بعد عبادت اور استعانت کو اپنی ذات میں منحصر کر دیا بنا برایں ذات الٰہی کے علاوہ کوئی اور اس قابل نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے یااس سے مدد طلب کی جائے یہ اس آیت کا دوسرا مقصد تھا اس کے بعد اللہ نے لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کریں جو انہیں ابدی زندگی لازوال نعمتوں اور اس نور کی رہنمائی کرے جس کے بعد کوئی ظلمت نہ ہو یہ سورہ مبارکہ کا تیسرا مقصد تھا پھر ذات الٰہی نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ یہ صراط مستقیم ان لوگوں سے مخصوص ہے جن پر اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نعمتیں نازل فرمائی ہیں اوریہ صراط مستقیم ان لوگوں کی راہ سے مختلف ہے جن پر غضب نازل ہوا اوران لوگوں کی راہ سے بھی مختلف ہے جو راہ راست سے بھٹک چکے ہیں یہ سورہ مبارکہ کا چوتھا مقصد تھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔کی تحلیل

لغت

اسم: لغت میں اسم کامعنی علامت ہے اور اس کا ھمزہ ، حمزہ وصل ہے اور لفظ کا لازمی جز نہیں ہے ویسے تو اس میں بہت سی لغات ہیں لیکن ان میں سے چار لغات مشہور ہیں ''اسم ،، ، ''اسم،، ، ''سم،، اور ''سم،، اسم کو دراصل ''سمو،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی بلندی ہے اس میں مناسبت یہ ہے کہ اسم کی وجہ سے اس کا معنی بلند ہو جاتا ہے اور خفار (پوشیدگی) سے ظہور میں تبدیل ہو جاتا ہے اس لئے سامع کے ذہن میں لفظ کو سن کر اس کا معنی حاضر ہو جاتا ہے یا اس مناسبت سے یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ لفظ وضع کی وجہ سے گمنامی سے نکل آتا اور استعمال میں آنے لگتا ہے۔