اعراب
بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ بسم اللہ میں جارو مجرور کا متعلق ''اقرائ،، یا ''اقوال ،، یا ''قل،، ہے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''استعین،، یا ''استعن،، ہے تیسرا قول یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے پہلے دو اقوال صحیح نہیں ہیں۔
دوسرا قول اس لئے باطل ہے کہ استعانۃ (مدد طلبی) اللہ کی طرف سے محال ہے کیونکہ ذات الٰہی بے نیاز ہے خدا نہ اپنی ذات سے مدد طلب کرتا ہے اور نہ اپنی صفات حسنہ سے اور مخلوق ، اللہ کی ذات سے مدد مطلب کرتی ہے اس کے اسماء حسنہ سے نہیں اس کی تصریح آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں موجود ہے۔
پس معلوم ہوا کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے اقوال یا اقراء نہیں ۔ اللہ کی طرف اسم کی اضافت بیانیہ نہیں ہے تاکہ اللہ الرحمن الرحیم سے مراد صرف الفاظ ہوں اس لئے کہ یہ احتمال بعید ہے اس کے علاوہ ان تینوں الفاظ کا مجموعہ مراد نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ یہ مجموعہ اسماء الٰہی میں سے نہیں ہے اور اگر ان سے مراد ایک ایک لفظ مستقل ہو تو حرف عطف ہونا چاہئے تھا اور جملہ یوں ہونا چاہئے تھا ''بسم اللہ والرحمن و الرحیم،، پس معلوم ہوا اضافہ معنویہ ہے بیانیہ نہیں اور لفظ ''اللہ،، اپنے معنی اور مسمیٰ میں استعمال ہواہے۔
تفسیر
کیونکہ قرآن کے سورے ، بشر کی اس کے ممکنہ کمال تک رہنمائی اور اسے شرک و جہالت کی ظلمت سے نکال کر نور توحید و معرفت سے منور کرنے کی غرض سے نازل ہوئے ہیں لہٰذا عین مناسب ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اسم سے کی جائے کیونکہ اسم خداوندی ہی ذات الٰہی کا مظہر بن سکتا ہے اور قرآن اسی مقصد کے لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس سے اللہ کی معرفت حاصل کی جائے۔