کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے؟
تمام علمائے شیعہ امامیہ کااتفاق ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء میں موجود بسم اللہ اس سورہ کا حصہ ہے اس قول کو ابن عباس ، ابن مبارک اور اہل مکہ جیسے ابن کثیر ہے ،نیز اہل کوفہ جس طرح عاصم اور کسائی ہیں ، نے اختیار کیا ہے۔ البتہ حمزہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔
اکثر علمائے شافعی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے نمبر ۱ مکہ اور کوفہ کے علماء بھی اسی پر یقین رکھتے ہیں نمبر ۲ یہی قول ابن عمر ، ابن زبیر ، ابی ھریرہ ، عطاء ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول ، زہری اور ایک روایت کے مطابق احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید القاسم بن سلام سے منقول ہے۔ نمبر ۳ بیہقی نے اس قول کو توری اور محمد بن کعب سے نقل کیا ہے۔ نمبر۴ رازی نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس نے اسے قراء مکہ و کوفہ اور اکثر فقہائے حجاز ، ابن مبارک اور ثوری کی طرف نسبت دی ہے جلال الدین سیوطی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس پر روایت متواترہ (تواتر معنوی) دلالت کرتی ہیں نمبر۵:
بعض شافعی اور حمزہ کاکہناہے ''بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا حصہ ہے دوسرے سوروں کا نہیں،، جس طرح پہلا قول (بسم اللہ ہر سورہ کا جز ہے) احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے اسی طرح یہ قول (بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا جزء
____________________
نمبر۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹
نمبر ۲ تفسیر الشوکانی ، ج ۱ ، ص ۷
نمبر ۳ تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۶
نمبر ۴ تفسیر الخازن ، ج ۱ ، ص ۱۳
نمبر ۵ الاتقان النوع ۲۲ ۔ ۲۷۔ ج ۱ ، ص ۱۳۵۔۱۳۶