قرآن اور معارف
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔
بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔
اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔