اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے مقاصد میں اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق یا افعال سے مدد طلب کرے ارشاد ہوتا ہے۔
( وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ ) ۲:۴۵
''اور (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کا سہارا پکڑو،،
( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ ) ۵:۲
''اور (تمہارا تو فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو،،
( مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ) ۱۸:۹۵
''ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو قدرت مجھے دے رکھی ہے وہ کہیں بہتر ہے،،۔
پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ اسعانت (مدد طلب کرنا) کے اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔
پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ استعانت (مدد طلب کرنا) کہ اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔
اس کا مقصد ، اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ انسان اپنے اختیاری اعمال میں جبرو تفویض کے درمیانی سنگم پر کھڑا ہے اس لئے کہ جملہ افعال انسان کے اختیارسے صادر ہوتے ہیں اسی لئے قول خداوندی( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) میں فعل کی نسبت انسان کی طرف دی گئی ہے لیکن انسان کا یہ فعل اللہ کی طرف لمحہ بہ لمحہ ملنے والی مدد اور قدرت کے ذریعے انجام پاتا ہے ، جو ایک غیر منقطع عطیہ ہے بایں معنی کہ اگر کسی بھی لمحے مدد الٰہی منقطع ہو جائے تو انسان اس فعل کو مکمل نہیں کر سکتا اور نہ اس سے کوئی عبادت اور نیکی ہو سکتی ہے۔