2%

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔