میں نہیں سمجھتا کہ آلوسی کے پاس اس نسبت (الزام) کی کیا دلیل ہے جب کہ وہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں مقیم تھا عراق کو شروع سے اب تک شیعوں کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے اور عتبات مقدسہ (زیارات ائمہ) بھی بغداد کے نزدیک ہیں اور شیعوں کے علاوہ دوسرے فرقوں کے ماننے والے وہاں کم ہیں اس کے علاوہ خود آلوسی شیعہ کتابوں سے بخوبی آشنا بھی ہے درحقیقت شیعوں کی طرف اس قسم کی نسبتوں ہی کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور انہیں الزام تراشیوں نے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے اور بعید نہیں کہ اس میں خارجی ہاتھ کارفرما ہو۔
ضمیمہ (۱۹) ص ۴۷۷
مولف اور حجازی عالم میں بحث
سن ۱۳۵۳ھ میں زیارت بیت اللہ سے شرفیاب ہوا اس دوران مسجد نبوی میں میری ملاقات ایک فاضل عالم دین سے ہوئی جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور ان سے (سجدہ گاہ) چھین لیتا تھا میں نے اس سے کہا:
شیخنا ! کیا رسول خدا (ص) نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: توپھر تم ان مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھینتے ہو جبکہ یہ شہادتیں پڑھتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں انہوں نے تربت (خاک کربلا) کو بت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدرے تفصیلی بحث کی جائے اس نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں۔
چنانچہ ہم دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخر کار اس نے اپنے اس عمل کی معذرت طلب کی اور اپنے رب سے استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا: درحقیقت اب تک میں غلطی فہمی کا شکار رہا ہوں۔