5%

قرآنی مکتب

اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان خود کو نہ تو طبیعت کے ہاتھوں میں ایک بے مقصد و بے ارادہ کھلونا تصور کرتا ہے نہ ہی اس دور حیات میں رونما ہونے والے نشیب و فراز کے اسرار و حکمت سے ناآشنا ہے۔ اس نظریاتی انسان کے لیے فنا و زوال کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:خلقتم للبقاء لاللفناء

قرآنی انسان کے نزدیک یہ دنیا ارتقائی منازل طے کرنے کے لیے ایک درسگاہ ہے اور قرآن کتاب درس ہے اور انبیاء و اوصیاء (علیھم السلام) اس انسان کے معلم و مربی ہیں۔ لہذا قرآن کا بنیادی مقصد ایک خاص نظریہ کے مطابق انسان کی تربیت ہے۔ چنانچہ اپنی جگہ یہ مسلمہ امر ہے کہ ارتقاء کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ استعداد، ماحول اور وقت۔ انسان سازی کے اس عمل کے آغاز میں قرآن انسان کو ارتقائی مراحل طے کرنے کے لیے مستعد کرتا ہے اور ایسے ہی مستعد افراد سے مربوط ایک امت کی تشکیل کے بعد ماحول بھی میسر آجاتا ہے۔ اس طرح ایک مدت میں تکامل اور ارتقاء کے تمام ضروری مراحل طے کرلیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

واعلموا انه لیس علی احد بعد القرآن من فاقة و لا لاحد قبل القراٰن من غنی ۔

آگاہ رہو کہ قرآن (کے نظام کو قائم کرنے) کے بعد کوئی شخص محروم نہیں ہوگا اور قرآن سے پہلے کوئی (حقیقی معنی میں) غنی نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا قرآن کے بغیر کسی فرد یا قوم کے لیے ارتقائی منازل طے کرکے مقصد تک پہنچنا قطعا ناممکن ہے۔ کیونکہ قرآن وہ سرچشمہئ حیات ہے کہ جس سے سیرابی کے بغیر کشپ انسانیت ہمیشہ ویران ہی رہے گی۔

قرآن اپنے اندر ایسے بے شمار دلائل و شواھد رکھتا ہے جن سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ کلام، خدا اور رسولِ خدا(ص) کا ابدی معجزہ ہے۔ قرآن کی گہرائی اور اس کی ظاہری و باطنی، تشریعی اور علمی عظمت اس قدر بلند و بالا ہے کہ کوئی باریک بین اور دور اندیش شخص اس کو اپنے دائرہئ نگاہ میں نہیں لاسکتا۔