2%

آیات میں ہم آہنگی

ہر عاقل اور تجربہ کار یہ سمجھتا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر قانون بناتا یا حوادث و واقعات بیان کرتا ہے تو اس کی باتوں میں خواہ مخواہ تضاد اور اختلاف پایا جاتا ہے، خصوصاً اگر یہ شخص قانون سازی، عمرانیات، عقائد اور اخلاقیات کے دقیق مسائل عرصہ دراز تک بیان کرتا رہے تو لازماً وہ تضاد بیانی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ ناقص بشر کی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ اگر کوئی اس کی اصلاح نہ کرے تو وہ ضرور اپنے علم میں تضاد ہو جاتا ہے۔ یہ ضرب المثل مشہور ہے:

دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔

قرآن کریم میں مختلف معاملات کا ذکر ہے اور ان پر مفصّل بحث کی گئی ہے۔ چنانچہ الہیات، نبوّت، تعلیم احکام کے بنیادی اصول، سیاسیات اور اخلاقی اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ فلکیات و تاریخ سے متعلّق مسائل، صلح و جنگ کے قوانین، ملک، ستارے اور ہواؤں جیسی آسمانی موجودات اور سمندروں، نباتات اور انسانوںجیسی زمینی موجودات کا اس میں ذکرملتا ہے، ان کے علاوہ مختلف قسم کی مثالوں کا قرآن کریم میں ،کر ہے اور قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں میں کسی قسم کا تضاد یا اختلاف نہیں پایا جاتا اور نہ ہی عقل اور عقلاء کے نزدیک ان کا کسی مسلمہ اصول سے اختلاف ہے، بلکہ بعض اوقات ایک ہی واقعہ دو مرتبہ یا کئی مرتبہ دھرایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں معمولی سا بھی اختلاف نظر نہیں آتا۔