قرآن اور نظام قانون
تاریخ دانوں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام سے پہلے اقوام، تعلیمات اور اخلاقیات کے لحاظ سے کس قدر جہالت میں مبتلا اور گئی گزری تھیں۔ ان کی وحشیانہ زندگی ہوتی تھی۔ ان میں ہمیشہ جنگیں ہوتی رہتی تھیں، لوگوں کے دل لوٹ کھسوٹ اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر تلے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی خرافات پر مشتمل عقائد عربوں میں پائے جاتے تھے۔ ان کے پاس نہ ایسا دین تھا جس پر ان کا اجتماع ہوتا اور نہ ایسا نظام تھا جو انہیں یکجا کرسکتا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کی بری عادتیں انہیں دائیں بائیں لے جارہی تھیں اور عرب ممالک میں کثرت سے بت پرست پائے جاتے تھے۔ مختلف قبیلوں اور اقوام کے مخصوص بت اور خدا ہوا کرتے تھے، جن کی وہ پرستش کیا کرتے اور خدا کے سامنے انہیں اپنا شفیع قرار دیتے تھے ۔ وہ بتوں سے اپنی حاجتیں مانگتے اور پانسہ ڈال کر فال لیتے اور قمار بازی پر فخر کرتے تھے۔ سوتیلی ماؤں سے شادیاں رچانا ان کی عادت تھی اور ان کی سب سے بدترین صفت لڑکیوں کو زندگہ دفن کردینا تھی۔
یہ تھیں زمانہ جاہلیّت کے عربوں کی عادات، ان کے خضائل، اور جب محمد عربی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نور کا ظہور ہوا اور مکہ میں اسلام کا سورج چمکا تو یہی عرب معارف و تعلیمات سے مزیّن اور مکارم اخلاق سے آراستہ ہوگئے۔ بت پرستی کی جگہ توحید، اور جہالت و نادانی کی جگہ علم نے لے لی۔ رذائل اور بری صفات کی جگہ فضائل نے انتشار و اختلاف کی جگہ محبت و