قرآن کے معانی میں پختگی
قرآن کریم متعدد موضوعات سے متعرض ہوا ہے اور اس کے مقاصد مختلف اور جدا ہیں جیسا کہ ان کا تعلق الہٰیات و معارف، آغاز خلقت اور معاد، رُوح، ملک، ابلیس اور جن جیسے مافوق طبیعت مفاہیم سے ہے۔ ان کے علاوہ فلکیات، زمین، تاریخ، گذشتہ انبیاء میں سے بعض کے مسائل و معاملات اور گذشتہ انبیاء اور ان کی امّتوں میں رونما ہونے والے واقعات سے ان کی مناسبت ہے۔ نیز ضرب الامثال، احتجاجات اور استدلالات، اخلاقیات، خاندانی حقوق، ریاستی سیاست، اجتماعی و جنگی نظام، قضا و قدر، کسب و اختیار، عبادات و معاملات ، نکاح و طلاق، واجبات اور حدود و قصاص وغیرہ سے یہ متعلق ہیں۔
قرآن کریم نے ان تمام مسائل کو ایسے ٹھوس حقائق کی صورت میں پیش کیا جن میں کسی طرح کے بطلان و تنقید کا گزر تک نہیں ہوسکتا اور کسی بھی باطل کے لیے ان میں گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا کمال ہے جس کا مظاہرہ ایک عام بشر سے ہونا محال ہے خصوصاً ایسے شخص سے جس نے ایک ایسی امّت میں پرورش پائی ہو جس کی قسمت میں نہ معارف تھے اور نہ دیگر علوم۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ علوم النظریہ پر تالیف شدہ کتب میں مذکور نظریات کچھ عرصہ گزرنے کے بعد باطل نظر آتے ہیں کیونکہ علمو النظریہ میں جتنی زیادہ غور و فکر کی جائے اتنے ہی زیادہ اس کے حقائق واضح اور آشکار ہو جاتے ہیں اور پہلوں نے جس نظریہ کو ثابت کیا ہوتا ہے بعد والوں کا نظریہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور حقیقت بحث و تمحیص سے جنم لیتی ہے کتنے ہی مباحث ایسے ہیں جنہیں پہلوں نے ادھورا چھوڑا اور بعد میں آنے والوں نے انہیں مکمّل کیا۔ اسی وجہ سے پہلوں کی فلسفہ کی کتب بعد میں آنے والوں کی تنقید کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے والے جن مسائل کو یقینی برہان سمجھتے تھے بعد میں ان پر ہونے والی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں وہ مسائل ادھام شمار ہونے لگے۔
قرآن کریم کو اتنا طویل عرصہ گزرنے، اس کے اغراض و مقاصد مختلف ہونے اور معانی کی رفعت کے باوجوداس میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو قابل تنقید و قابل اعتراض ہو، سوائے ان چند توہمات کے جن کو کوتاہ فکر افراد اپنے زعم باطل میں تنقید سمجھتے ہیں۔ اس اوہام کا ذکر اور ان کا باطل ہونا ہم بعد میں ثابت کریں گے۔