2%

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۵;موسىعليه‌السلام اور توحيد عبادى ۴;موسىعليه‌السلام اور شرك عبادى ;موسىعليه‌السلام كا تعجب،۱ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ، ۱،۵ ;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت۱۴۱

( وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے نجات دى جو تمھيں بدترين عذاب ميں مبتدلا كر رہے تھے تمھارے لڑكوں كوقتل كر رہے تھے اور لڑكيوں كوخدمت كے لئے باقى ركھ رہے تھے اور اس ميں تمھارے لئے پروردگار كى طرف سے سخت ترين امتحان تھا (۱۴۱)

۱_ بنى اسرائی ل، آل فرعون كے زير تسلط ہميشہ سخت عقوبتوں ميں گرفتار رہے تھے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' مسلط كرنا كے معنى ميں آتاہے كلمہ''سَوئ'' كى كلمہ ''العذاب'' كى طرف اضافت ايك صفت كى موصوف كى طرف اضافت ہے، يعني: العذاب السوئ_

۲_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے آل فرعون كے تسلط اور ان كے جان ليوا شكنجوں سے نجات دلائی _و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

جملہ''هو فضلكم'' (اس نے تمہيں فضيلت بخشي) ميں فضيلت بخشنے كى نسبت صرف خدا كى طرف دى گئي ہے ليكن دوسرے جملے''ا نجيناكم'' (ہم نے تمہيں نجات دي) ميں نجات بخشنے كى نسبت ضمير ''نا'' (يعنى ہم) كى طرف دى گئي ہے اس موازنے سے سمجھا جا سكتاہے كہ خدا نجات بخشنے كے عمل ميں اسباب كى طرف بھى نظر ركھتاہے كہ مذكورہ بحث كى مناسبت سے اس كا سبب بعثت موسىعليه‌السلام ہے، بنابراين''ا نجيناكم'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے تمہيں نجات دي_۳

_ آل فرعون كے تسلط اور ان كے عذابوں سے نجات بنى اسرائیل كيلئے ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ايك يادگار واقعہ ہے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذابكلمہ ''إذ'' فعل مقّدر ''اذكروا'' كيلئے مفعول بہ ہے_