آیت ۱۶۸
( وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَماً مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )
اور ہم نے بنى اسرائیل كو مختلف ٹكڑوں ميں تقسيم كرديا بعض نيك كردار تھے اور بعض اس كے خلاف _ اور ہم نے انھيں آرام اور سختى كے ذريعہ آزمايا كہ شايد راستہ پر آجائیں (۱۶۸)
۱_ خداوند متعال نے يہودى معاشرے كو گروہ گروہ كرتے ہوئے روئے زمين ميں پراكندہ كرديا_و قطّعنهم فى الا رض ا مماً
كلمہ ''امما''،كلمہ ''قطّعناھم'' كيلئے مفعول دوم بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں ''قطّعنا'' ميں ''تصيير'' كا معنى متضمن ہوگا چنانچہ ''قطّعناھم'' كى ضمير ''ھم'' كيلئے حال بھى ہوسكتى ہے_
۲_ انسان كے تاريخى اور سماجى تحولات خدا كے اختيار ميں ہيں _و قطّعنهم فى الا رض امماً و بلونهم بالحسنات والسيئات
۳_ پراكندہ كيے گئے يہوديوں كے گروہوں ميں سے بعض صالح اور بعض برے ہيں _منهم الصلحون و منهم دون ذلك
كلمہ ''دون'' غير كے معنى ميں ہے اور ''ذلك'' اشارہ ہے صالح كى طرف كہ جو ''الصلحون'' سے سمجھا جاتاہے يعني:''منهم غير صالحين''
۴_ خداوند متعال نے يہوديوں كے گروہوں كو كبھى تونعمات اور آساءشات عطا كركے اور كبھى سختيوں اور مشكلات ميں مبتلاء كركے آزمايا_و بلونهم بالحسنت و السيئات
''بلوناھم'' كى مفعولى ضمير سے مراد تمام يہودى برے اور اچھے بھى ہوسكتے ہيں اور صرف ان ميں سے برے بھي، فوق الذكر مفہوم كى اساس احتمال اول ہے_
۵_ دكھ اور سكھ باہدف ہوتے ہيں اور خدا كى طرف سے انسان كى آزماءش كا باعث ہوتے ہيں _
و بلونهم بالحسنت و السيئات
۶_ سختيوں اور آساءشوں كے ذريعے برے يہوديوں كو آزمانے كا ايك مقصد انہيں اصلاح اور نيكى كى طرف پلٹانا تھا_
و بلونهم بالحسنت والسيئات لعلهم يرجعون