آیت ۲۵
( وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ )
اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمين كو پہنچنے والا نہيں ہے اور ياد ركھو كہ اللہ سخت ترين عذاب كا مالك ہے(۲۵)
۱_ بعض گناہوں اور مظالم كے برے اثرات فقط گناہگار اور ظالم پر مرتب ہوتے ہيں اور بعض دوسرے گناہ اور مظالم گناہ گار اور بے گناہ سب كواپنى لپيٹ ميں لے ليتے ہيں _و اتقوا فتنة لا تصيبنّ
۲_ ايمانى معاشرے ميں كيئےئے بعض گناہ اور مظالم، سب لوگوں (گناہ كے مرتكب اور غير مرتكب يعنى ظالم و غير ظالم) كے عذاب الہى ميں مبتلا ہونے كا باعث بنتے ہيں _و اتقوا فتنة لا تصيبنّ الذين ظلموا منكم خاصة
''لا تصيبنّ'' ميں ''لا'' نافيہ اور''خاصةً''، ''الذين'' كيلئے حال ہے اور فتنہ كيلئے جملہ''لا تصيبنّ الذين ...توضيح اور تبيين ہے_
''اتقاء فتنة'' سے مراد اس كے عامل سے پرہيز ہے كہ جو ''ظلموا'' كے قرينے سے ''ظلم و ستم'' ہے، بنابرايں آيت كا معنى يہ ہوگا، اے اہل ايمان ان گناہوں سے پرہيز كرو جو ايك عظيم فتنے كا موجب بنتے ہيں ، يہ وہ فتنہ ہے كہ جو نہ صرف گناہگار كے دامن گير ہوتاہے بلكہ جن كے شعلے تمام لوگوں كو اپنى لپيٹ ميں لے ليتے ہيں _
۳_ اہل ايمان كا فريضہ ہے كہ وہ ہر اس فتنے كا مقابلہ كريں كہ جس كے شعلے پورے معاشرے كو اپنى لپيٹ ميں لے ليتے ہيں _و اتقوا فتنة لا تصيبنّ الذين
جيسا كہ گذر چكاہے، مذكورہ بحث ميں فتنے كا سبب و عامل گناہ اور ظلم ہے، اور ''ظلموا منكم'' كے مطابق اس گناہ و ظلم كے مرتكب، معاشرے كے بعض لوگ ہيں بنابراين مخاطبين كى نسبت، اتقاء كا امر (اتقوا فتنةً ) مختلف ہوگا، يعنى گناہگاروں اور ظالموں كو گناہ و ظلم سے پرہيز كرنے كا امر ہے اور جو لوگ گناہ و ظلم كا ارتكاب نہيں كرتے، انھيں اس كے ارتكاب كو روكنے كا امر ہے_