2%

آیت ۴۲

( إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَـكِن لِّيَقْضِيَ اللّهُ أَمْراً كَانَ مَفْعُولاً لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ )

جب كہ تم وادى كے قريبى محاذ پر تھے اور وہ لوگ دور والے محاذ پر تھے اور قافلہ تم سے نشيب ميں تھا اور اگر تم پہلے سے جہاد كے وعدہ پر نكلتے تو يقينا اس كے خلاف كرتے ليكن خدا ہونے والے امر كا فيصلہ كرنا چاہتا تھا تا كہ جو ہلاك ہو وہ دليل كے ساتھ اور جو زندہ رہے وہ بھى دليل كے ساتھ اور اللہ سب كى سننے والا اور سب كے حال دل كا جاننے والا ہے(۴۲)

۱_ جنگ بدر كے موقع پر لشكر اسلام اور لشكر كفر بدر كے علاقے ميں واقع ايك درّے كے دو كناروں پر آمنے سامنے مستقر ہوگئے_إذ ا نتم بالعدوة

''عُدوة ''كا معنى وادى كا كنارہ'' ہے اور ''وادي'' اس زمين كو كہتے ہيں جو دو پہاڑوں اور ٹيلوں كے درميان واقع ہو اور ہر وادى دو كناروں (عدوة) كى حامل ہوتى ہے، آيہ شريفہ ميں كلمہ ''عدوہ'' كاتكرار ظاہر كرتاہے كہ سپاہ اسلام وادى كے ايك

كنارے پر تھى اور سپاہ كفر و شرك دوسرے كنارے پر مستقر تھي_

۲_ جنگ بدر ميں لشكر ايمان اور لشكرشرك كے درميان واقع درّہ بلندى و پستى (نشيب و فراز) كے لحاظ سے دو مختلف كناروں پر مشتمل تھا_*إذ ا نتم بالعدوة الدنيا و هم بالعدوة القصوى

''دنيا'' كا معنى نزديك تر اور ''قصوى '' كا معنى دورتر ہے، بظاہر ان دو كناروں اور گھائی وں كى دورى و نزديكى درّے اورمسطح زمين كے درميان نسبت كو ديكھتے ہوئے مشخص كى گئي ہے_ يعنى آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كنارے پر تھے كہ جو مسطح و ہموار زمين كے نزديك تھا اور كفار اس كنارے پر مستقر تھے كہ جو مسطح زمين سے دور تھا_ دونوں كناروں كى دورى اور نزديكي، سطح زمين كى نسبت سے ان دونوں كناروں كى بلندى و پستى كے لحاظ سے ہے_

۳_جنگ بدر ميں مسلمان نشيب (پستي) والے كنارے پر اور كفاربلندى والے كنارے پر مستقر تھے_

إذ أنتم بالعدوة الدنيا و هم بالعدوة القصوى