دیکھو میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو میری وہ تعریف کرے گاجو مجھ میں نہیں ہے اور مجھ سے دشمنی کرنے والا جسے عداوت الزام تراشی پر آمادہ کردے گی ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 336 / 1376 ، صواعق محرقہ ص 123 ، مسند ابویعلیٰ 1 ص 274 / 530 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 237 / 742 ، امالی طوسی (ر) 256 / 462 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 63 / 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 560۔
1259۔ ابراہیم بن ابی محمود ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! ہمارے پاس امیر المومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات میں جنھیں مخالفین نے بیان کیا ہے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیاہے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟
فرمایا ابن ابی محمود، مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا ہے کہ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ ہوگیا، اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہاہے تو یہ اللہ کا بندہ ہوگا اوراگر ابلیس کی بات کہہ رہاہے تو یہ ابلیس کا بندہ ہوگا۔
اس کے بعد فرمایا، ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انھیں تین قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک حصہ غلو کاہے، دوسرے میں ہمارے امر کی توہین ہے اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت ہے۔
لوگ جب غلو کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اورجب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا ہے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ عداوت میں بلاکسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے۔