دنیا کا کونسا باشعور مسلمان ہے جو لفظ اہلبیت(ع) یا اس کے مصادیق کی عظمت سے باخبر نہ ہو، قرآن مجید نے اس لفظ کو متعدد بار استعمال کیا ہے اور ہر مرتبہ کسی نہ کسی عظمت و جلالت کے اظہار ہی کے لئے استعمال کیا ہے۔
جناب ابراہیم (ع) کے تذکرہ میں یہ لفظ آیاہے تو رحمت و برکت کا پیغام لے کر آیاہے اور جناب موسیٰ (ع) کے حالات کے ذیل میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اسے محافظ حیات نبوت و رسالت کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد یہ لفظ سرکاردو عالم کے مخصوص اہل خاندان کے بارے میں استعمال ہوا ہے جس کا مقصد اعلان تطہیر و طہارت ہے اس کے باوجود اس میں جملہ خصوصیات و امتیازات جمع کردیئے گئے ہیں۔ اہلبیت (ع) مرکز تطہیر و طہارت بھی ہیں اور محافظ حیات رسالت و نبوت بھی اہلبیت(ع) کی زندگی میں رحمت و برکت بھی ہے اور انہیں مالک کائنات نے مستحق صلوات بھی قرار دیا ہے۔
عصمت و عظمت کا ہر عنوان لفظ اہلبیت (ع) کے اندر پایا جاتاہے اور پروردگار نے کسی بھی غلط اور ناقص انسان کو اس عظیم لقب سے نہیں نوازا ہے اور جب کسی انسان کے کردار پر تنقید کی ہے تو اسے اس کے گھر کا قرار دیا ہے نہ اپنے بیت کا اہل قرار دیا ہے اور نہ پیغمبر کے اہلبیت (ع) میں شامل کیا ہے۔
بیت کی عظمت خود اس بات کا اشارہ ہے کہ اہلبیت (ع) کن افراد کو ہونا چاہیئے اور انہیں کن فضائل و کمالات کا مالک ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے بعد بھی مالک کائنات نے آیت تطہیر کے ذریعہ ان کی عظمت و طہارت کا اعلان کردیا تا کہ ہر کس و ناکس کو اس بیت کے حدود میں قدم رکھنے کی ہمت نہ ہو اور ہر ایک کو یہ محسوس ہوجائے کہ اس میں قدم رکھنے کے لئے ہر طرح کے رجس سے دور رہنا پڑے گا اور گناہ و معصیت کے ساتھ شک و ریب کی کثافت سے بھی پاک و پاکیزہ رہنا پڑے گا اور اس کے بعد اس منزل طہارت پر رہنا ہوگا جسے حق طہارت سے تعبیر کیا جاتاہے اور جس سے بالاتر کسی منزل طہارت کا امکان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ تطہیر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دوبارہ اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی ہے کہ نبوت کے اہلبیت (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے حق طہارت کی منزل پر فائز کیا جاسکے اور یہ ان کی بلندی کردار اور انفرادیت حیات کی بہترین علامت ہے