23%

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔