وہ معارف جو ان تمام مسائل کا جواب دیتے ہیںوہ میراث انبیاء ہیں ۔ یہ معارف تمام خیر و برکت کا سرچشمہ، عقل عملی اور جوہر علم کے روشن و بارونق ہونے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ اور ان معارف سے لاعلمی انسانی معاشرہ کو دشوار ترین مشکلات اور دردناک مصائب میں مبتلا کرتی ہے۔
البتہ تنہا ان معارف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ معارف اس وقت کا ر آمد و کارساز ہیںجب عقل کے ذریعہ جہل چوتھے مفہوم کے لحاظ سے مہار کیا جائے ۔
اسلامی نصوص میں جہل کا چوتھا مفہوم گذشتہ مفاہیم کے بر خلاف ایک امر وجودی ہے نہ کہ عدمی ، اور عقل کے مقابل مخفی و پوشدہ شعور ہے اور عقل کے مانند مخلوق خدا ہے جس کے کچھ آثار و مقتضیات ہیں کہ جنہیں'' عقل کے سپاہی'' کے مقابل میں''جہل کے سپاہی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس جہل کو قوت سے اس لئے تعبیر کیا ہے تاکہ یہ پوری طور پر عقل کے مقابل قرار پا سکے اس قوت کے لئے دوسرے بھی نام ہیںکہ جن کا بیان خلقت عقل کی بحث میں ہو چکا ہے ۔
جیسا کہ علامات عقل کے باب اول میں ذکر ہو چکا ہے کہ تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی حسن وجمال جیسے خیر، علم ، معرفت ، حکمت ، ایمان ، عدل ، انصاف، الفت، رحمت، مودت، مہربانی ، برکت، قناعت، سخاوت، امانت، شہامت ، حیا، نظافت ،امید، وفا، صداقت، بردباری، صبر، تواضع ،بے نیازی، نشاط وغیرہ کو عقل کے سپاہیوں میںشمار کیاہے ۔
اور ان کے مقابل میں تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی برائیوں جیسے : شر، جہل، حماقت، کفر، ستم ،جدائی، قساوت، قطع رحم ، عداوت، بغض، غضب، بے برکتی، حرص ، بخل ، خیانت، بزدلی ، بے حیائی، آلودگی ، ہتک ، کثافت، نا امیدی ، کذب، سفاہت،بیتابی، تکبر، فقر اور سستی وغیرہ کو جہل کے سپاہیوں میں شمار کیا ہے ۔