۳ پیغام الہی:
ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:
” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“(۳۴)
انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔
اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔(۳۵) یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔
بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(۳۶)
یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔
انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔(۳۷)
جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔(۳۸)
____________________
۳۴ ۔ حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ ء،ص ۱۹۱
۳۵ عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج ۱ ،ص ۱۸ راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص ۵۱۵ وحی اللہ ص ۵۲ علوم القرآن ص ۲۹ القاء الہام اور وحی ص ۱۳
۳۶ تفسیر المنار:ج ۱۱ ص ۱۷۹
۳۷ تفسیر المنار،ج ۱ ص ۱۲ تاریخ القرآن،ص ۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص ۲۴ وحی الہی ص ۲۵
۳۸ رسالة التوحید،ص ۱۱۱ ، مناھل العرفان فی العلوم القرآن،ص ۵۶ ، القرآن والمستشرقون، درآمدی برعلوم قرآنی،ص ۲۵۲ ، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص ۱۷،۱۸ ۔