وحی کا اصطلاحی مفہوم:

لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔

۱ دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔

۲ دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیااس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔

لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔

____________________

۱ اس تحریر کی گذشتہ قسط کی بحث کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔

۲ العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:

” فاوحت الینا و الانامل رسلهار و شدها بالراسیات الثبت

العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:

حتی نحاهم جدنا و الناحی

لقدر کان وحاه الواحی

(دیوان عجاج،ص ۴۳۹)

لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:

وفمدا فع الریان عری رسمها

خلقا کما ضمن الوحی سلا مها