40%

ایک سے زیاہ ز وجہ

قبل از اسلام تعدد ازواج کا رواج تھا عام طورپر محبت یا بچوں کی کثرت ایک سے زیادہ ازواج کی سبب تھی بعض اوقات یہ تصور بھی کہ خاندان میں عورتیں زیادہ اور مرد کم ہیں اورعورت کو تحفظ کی ضرورت ہے لہذا تعددازواج کا سلسلہ چل نکلا اسمیں کوئی قید نہیں تھی، امراء مال دار لوگ بہت زیادہ شادیاں رچا لیتے تھے جو عورت اچھی محسوس ہوتی اسے اپنے گھر لے آتے اسلام نے فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ عورت کو تحفظ حاصل ہو جس سے محبت ہے زناکاری میں نہ پڑ جائے یا اس کی خواہش پوری ہو جائے لیکن اس کو محدود کر دیا صرف چار میں پھرباقاعدہ حکم و اجازت ایک شادی کی ہے، دوسری شادی مشروط بشرط ہے اور وہ ہے انکے مابین انصاف و عدالت گویا تعداد کے لحاظ سے مہدود پھر عدالتسے بھی مشروط تاکہ ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے دوسری شادی کرلی جائے لیکن انصاف کادامن چھوٹنے نہ پاتےایسا نہ ہو کہ یہاں پہلی بیوی کے حقوق غصب اوردوسری راحت وعیش میں نہیں نہیں انصاف و عدالت لازم اورپھر خدائی پرستش بھی ہوگی ارشادِ رب العزت ہے: فانکحوا اما طاب لکم من النساء امثنی و ثلاث و رباع فان خفتم الاقد لوا فواحدة او ما ملکت ایمانکم ذلک ادنیٰ ان لا تعولوا جو دوسری عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو یا تین یا چار سے نکاح کرلو تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکوگے کہ تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو کافی ہے یہ ناانصافی سے بچنے کی بہتر ین صورت ہے (نساء، ۳) جو رواج پہلے چل رہے تھے کہ لوگ کثرت سے شادیاں رچاتے تھے بعض تو سو سے بھی زیادہ شادیاں کرلیتے تھے اسلام نے اسے دو شرطوں سے مشروط کردیا

۱) صرف چارتک محدود کر دیا اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دی

۲) عدالت و انصاف لازمی ہے عدم انصاف کا خوف ہو تو دوسری شادی جائز نہیں یہ سب کچھ کیوں بے سہارا عورت کو سہارا مل جائےکثرت سے عورتوں کا نکاح ہو جائے کسی کی چاہت دل میں ہے تو غلط راستہ کی بجائے صحیح راستہ سے خواہش پوری ہوجائے آج مغرب کی حالت دیکھیں بعض ممالک میں ۳۵ فیصدسے زیادہ حرام زادے موجو د ہیں عورت کھلونا بن چکی ہے کمائی کا ذریعہ بن گئی ہے عورت کی بے چارگی ا س قدر کہ اس کا کوئی سہارا نہیں چند دن اس کو ساتھ پھر ایا پھر چھوڑ دیا پھر کہیں اور ظمت عورت کا تقاضا اچھے مرد کا ساتھ ہے جو عزت کا محافظ ،غیرت کا محافظ اور ضروریات زندگی کا ضامن ہو یہ ہے عورت کی شان