33%

تکبر اور غرور

خبردار! تکبر سے محفوظ رہنا کہ میں نے بار بار دیکھا ہے کہ پروردگار نے متکبرین کو ذلیل کیا ہے اور مغرورین کی ناک رگڑی ہے۔ غرور کا نتیجہ ناکامی، مایوسی، ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

٭ خدا ان متکبروں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن کی چال میں اکڑ ہوتی ہے اور ایسے لوگوں پر زمین و آسمان لعنت کرتے ہے۔( ۱ )

٭ اکڑنے والا خیار سماوات وارض خدا کا دشمن ہوتا ہے۔( ۲ )

یاد رکھنا کہ تکبر اور اکڑ سفاہت اور حماقت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان کے پاس اکڑ کا ذریعہ کیا ہے۔ وہ اپنے اول و آخر کو یاد کرلے تو ابتدا میں نطفۂ نجس تھا اور آخر میں مردار ہوجائے گا تو اب تکبرّ اور اکڑ کی کیا وجہ ہے۔( ۳ )

٭ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کے شکم میں پائخانہ کا وجود اس جذبۂ غرور کو مٹانے کے لئے ہے کہ جو اپنے ساتھ شکم میں غلاظت لئے پھرتا ہے وہ کس بات پر اکڑتا ہے۔( ۴ )

فرزند! خبردار، غرور، اکڑ اور اس کے اسباب سے محفوظ رہنا۔ زمین پر خط دینے والا لباس نہ پہننا کہ اس سے غرور پیدا ہوتا ہے اور ایسا آدمی بوئے جنت سے بھی محروم رہتا ہے۔( ۵ )

٭ ایسے شخص کی قبر جہنم کی طرف دھنس جاتی ہے اور اسکا حشر قارون کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ بھی زمین میں دھنس گیا تھا۔( ۶ )

دوسرے لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اور تم بیٹھے رہو یہ بھی غرور کا انداز ہے پروردگار ایسے انسان کو اہل جہنم میں شمار کرتا ہے جو مغرورانہ انداز سے بیٹھا رہے اور لوگ اس کے گرد کھڑے رہیں۔( ۷ )

(اہل اقتدار و اہل ریاست اس نکتہ پر توجہ فرما ئیں۔ جوادی)

٭ ائمہ معصومین علیہم السلام نے غرور کا علاج پیونددار لباس، کہنہ نعلین گرد آلود چہرہ اور بازار سے سامان لا نے، معمولی سواری پر سوار ہونے اور مساکین کی ہم نشینی کو قرار دیا ہے۔ اور یہی طرز عمل اپنایا بھی ہے۔( ۸ )

٭ اللہ نے تکبر کرنے والوں سے نعمتیں سلب کرلی ہیں۔ شیطان کا انجام پیش نظر ہے کہ وہ اس ایک تکبر کی وجہ سے نعمت قرب الٰہی سے محروم ہو گیا۔ لہٰذا خبردار اس جلاد سے محفوظ رکھنا اور اس کے اسباب سے بھی اپنے کو بچائے رکھنا۔

تواضع و انکسار

فرزند! خاکساری اختیار کرنا کہ اس میں خیر دنیا و آخرت دونوں ہے روایات میں ہے کہ تواضح سے بلندی حاصل ہوتی ہے۔( ۹ )

٭ تواضع میں شرف ہے۔( ۱۰ )

٭ تواضع سے حکمت آباد ہوتی ہے۔( ۱۱ )

٭ تواضع و خشوع، خوفِ خدا اور حیا و غیرت کی کھیتی ہے۔( ۱۲ )

٭ پروردگار تواضع کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور اس نے ہر انسان پر ایک ملک کو معین کر کے اس کی پیشانی ملک کے قبضہ میں دے دی ہے۔ کہ جب وہ اکڑ کر سر اٹھاتا ہے تو ملک جھگا دیتا ہے اور جب انکسار سے سر جھکاتا ہے تو ملک اسے سربلند کر دیتا ہے۔( ۱۳ )

٭ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی تواضع و خاکساری کی بنا پر کلیم بنادیا تھا کہ انھوں نے خاک پر پیشانی رکھی تھی تو اللہ نے انھیں سب سے بلند کردیا اور پورے زمانہ سے ممتاز کردیا۔

فرزند! خبردار، دوسروں کو حقیر نہ سمجھنا کہ اس میں خالق کی توہین ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جناب نوح علیہ السلام ایک خارش زدہ کتے کے قریب سے گزرے اور انھوں نے حقارت سے فرمایا کہ یہ کیسا کتا ہے تو وہ بحکم خدا گویا ہوا کہ خداوند عالم نے مجھے ایساہی بنایا ہے اگر آپ کو پسند نہیں تو مجھے اس سے اچھا بنا دیجئے۔ جناب نوح علیہ السلام بے حد شرمندہ ہوئے اور اس ترک اولیٰ پر چالیس سال گریہ کرتے رہے جس کے بعد انھیں نوح خطاب ملا حالانکہ ان کا نام عبد الجبار تھا۔( ۱۴ )

اسی طرح جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا کہ ایک ایسی مخلوق کولے کر آؤ جس سے تم بہتر ہو تو وہ ایک خارش زدہ کتے کو لے کر چلے اور راستہ میں چھوڑ دیا تو مقام مناجات میں ارشاد ہوا کہ اگر تم اس کو لیکہ آجاتے تو میں تمہارا نام دیوان نبوت سے محو کردیتا کہ میرے مقربین کسی طرح کے غرور کا شکار نہیں ہوتے۔ بقول عارفین جب تک انسان میں یہ احساس رہے گا کہ وہ دنیا میں کسی ایک سے بھی بہتر ہے اس میں تکبر برقرار رہے گا۔

(کھلی ہوئی بات ہے کہ اس قسم کے واقعات درس اخلاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ کوئی نبی نہ مغرور ہو سکتا ہے اور نہ اس کا نام دیوانِ نبوت سے کٹ سکتا ہے۔ اللہ نے انبیاء کو ذریعہ بنایا ہے۔ عام انسانوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لئے جیسا کہ اس سے پہلے جناب نوح علیہ السلام، جناب یعقوب علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام کے تذکرہ میں گزر چکا ہے۔ جوادی)۔

حرص

فرزند! خبردار، حرص اور لالچ سے محفوظ رہنا کہ جناب حوّا کو اسی راستہ سے سمجھایا گیا تھا کہ گندم استعمال کریں ورنہ ان کے پاس جنت میں کس نعمت کی کمی تھی اور پھر انھوں نے یہی مسئلہ جناب آدم علیہ السلام کے سامنے رکھ دیا تھا۔

حرص سے پرہیز کرنے کی نصیحت خود شیطان نے بھی کی ہے۔ جناب نوح علیہ السلام سے کہا ہے کہ لالچ سے محفوظ رہنا اور خبردار کسی ایسی جگہ پر نہ رہنا جہاں نا محرم عورت تمہارے ساتھ ہو اور کوئی تیسرا نہ ہو ورنہ تیسرا میں ہو جاؤں گا۔( ۱۵ )

خود پسندی

خبردار! خود پسندی کا شکار نہ ہونا کہ یہ دین کے لئے فساد اور عمل کے لئے بربادی کا ذریعہ ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کا ساتھی ان کے ساتھ بسم اللہ کہہ کر دریا پر چل پڑا اور جب درمیان میں یہ خیال آیا کہ اب تو میں بھی عیسیٰ علیہ السلام جیسا ہو گیا ہوں تو وہیں ڈوبنے لگا اور فریاد کی۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اسے سنبھال لیا اور سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ خود پسندی کا نتیجہ ہے۔ آپ نے توبہ کی تلقین کی اس نے توبہ کی اور پھر کمال واپس آگیا کہ بسم اللہ کہہ کر پانی پر سے گزر جانا تھا۔( ۱۶ )

ریاکاری

فرزند! ریاکاری سے بھی بچتے رہنا کہ یہ شرک کے مترادف ہے اور روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص غیر خدا کو دکھانے کے لئے عمل کرتا ہے اللہ روز قیامت اس کو اسی کے حوالے کردے گا۔( ۱۷ )

٭ ریاکار قیامت کے دن چار ناموں سے بلایا جائے گا، فاجر، کافر، غدار اور خسارت کار۔ اس کے اعمال برباد، اجر معطل اور اسے انجام کار اس کے حوالے کر دیا جائے گا جسکے دکھانے کے لئے عمل انجام دیا تھا۔( ۱۸ )

٭ بعض روایات میں ہے کہ انسان خدا کے لئے قلیل عمل کرتا ہے تو وہ بندوں میں کثیر بنا کر پیش کردیتا ہے اور بندوں کیلئے کثیر عمل انجام دیتا ہے تو وہ قلیل بنا دیتا ہے چاہے رات بھر بیدار ہی کیوں نہ رہا ہو اور اپنے جسم کو تھکا ہی کیوں نہ ڈالا ہو۔( ۱۹ )

٭ عقل بھی اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ بظاہر خدا کی عبادت کی جائے اور واقعا غیر اللہ کیلئے عمل کیا جائے۔ آخر انسان کی بندگی میں کیا فائدہ ہے اور وہ بیچارہ جو ایک مچھر کو اپنے سے دفع نہیں کر سکتا وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ جو مکھی کی چھینی ہوئی شے کو واپس نہیں لے سکتا اس سے انسان کیا توقع رکھتا ہے اور اس کی رضامندی کے لئے عمل کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔

مايوسی

فرزند! خبردار، مایوسی کا شکار نہ ہونا کہ عذاب خدا کی طرف سے اطمینان اور رحمتِ خدا سے مایوسی گناہ کبیرہ میں ہے اور اس سے خدا سخت ناراض ہوتا ہے بلکہ اس میں توہین پروردگار بھی ہے۔

میں نے بعض ایسے گناہگاروں کو دیکھا ہے کہ جہنم کے بارے میں شیطان صرف گناہگار بنادینے پر راضی نہیں ہوا بلکہ انھیں رحمت خدا سے مایوس کر کے توبہ سے بھی روک دیا اور نتیجہ میں وہ دہرے گناہ کے مرتکب ہو گئے۔ معصیت بھی کی اور رحمت خدا سے مایوس بھی ہوئے اور آخر میں توبہ واجب کو بھی ترک کیا۔

____________________

[۱] وسائل ۲، ص ۴۷۲

[۲] وسائل ۲، ص ۴۷۲

[۳] مستدرک ۲، ص ۳۳۰

[۴] فروع کافی ۳، ص ۷۰

[۵] وسائل الشیعہ ۲۸۳

[۶] وسائل الشیعہ ۱، ص ۲۸۳

[۷] جامع السعادات ۱، ص ۳۰۹

[۸] مستدرک ۲، ص ۳۲۹

[۹] وسائل ۲، ص ۴۰۷

[۱۰] مستدرک ۲، ص ۳۰۶

[۱۱] وسائل ۲، ص ۴۰۷

[۱۲] مستدرک ۲، ص ۳۰۶

[۱۳] وسائل ۲، ۴۷۱

[۱۴] مستدرک ۲، ص ۲۶۲

[۱۵] مستدرک ۲، ص ۳۳۰

[۱۶] اصول کافی ۲، ص ۳۰۶

[۱۷] اصول کافی ۲، ص ۲۹۳

[۱۸] وسائل ۱، ص ۱۱

[۱۹] اصول کافی ۲، ص ۲۱۶