تحریف کے تیسرے معنی
قرآن کریم میں ایک لفظ یا اس سے زیادہ کو کم یا زیادہ کرنا،حالانکہ خود قرآن کریم محفوظ ہے ۔ان معنوں میں تحریف صدر اسلام اور اصحاب کرام کے زمانے میں یقینا واقع ہوئی ہے لیکن اس کی شدت سے مخالفت ہوئی ہے اس کی دلیل اجماع مسلمین ہے ۔یعنی جناب عثمان کے دور میں مصاحف میں سے کچھ صحیفوں کو جمع کر کے آگ لگا دی گئی اور اپنے حکمرانوں کو دستور دیا کہ میرے قرآن کے علاوہ دوسروں کو جلا دو ،اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمان کا قرآن دوسرے قرآنوں سے الگ تھا اور محققین و علماء کی ایک جماعت جس میں سے ایک ابی داؤد سجستانی ہے انہوں نے اس وقت کے نسخوں کے جن موارد میں اختلاف تھا ان کو جمع کیا ہے یعنی عثمان نے جن نسخوں کوآگ لگانے کا حکم دیا تھا ان میں اجمالی طور پر تحریف ہوئی تھی لیکن عثمان نے جس قرآن کو جمع کر کے رائج کیا وہ یہی قرآن کریم ہے جو آج تک کسی تحریف کے بغیر ہم تک پہنچا ہے ۔لہٰذا عثمان کے دور حکومت سے پہلے جو نسخے معاشرے میں رائج تھے ان میں سے ایسی تحریف واقع ہونے کو قبول کرنا چاہیے لیکن جو قرآن دور حاضر میں ہمارے پاس موجود ہے وہ عثمانی نسخہ کے مطابق ہے جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہے ۔