پہلا اعتراض
ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام معانی اس عنوان میں نہیں ہیں کہ لفظ تحریف اس میں استعمال ہو جس کی وجہ سے مشترک لفظی کہلائے بلکہ تحریف کے صرف ایک معنی ہیں جو معانی مذکورہ میں سے پہلے معنی ہےں ۔تحریف یعنی ''نقل الشیء عن مواضعہ'' کسی چیز کو اس کے محل سے ہٹا دینا ،لیکن دوسرے سارے معانی اس کے مصادیق ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ مذکورہ تمام معانی میں نقل الشیء عن موضعہ کے معنی پائے جاتے ہیں ۔لیکن کبھی نقل معنیٰ میں جس کو تحریف معنوی کہتے ہیں اور کبھی نقل ،لفظ میں جس کو تحریف لفظی کہتے ہیں اور خود اس کی دو قسمیں ہیں 1۔یا تو نقل لفظ تفصیلی ہے 2۔یا اجمالی۔یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کمی و بیشی معین طور پر ہوتی ہے یا بطور اجمال واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا اس مختصر تحقیق کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس عظیم محقق کے کلام میں جو معانی تحریف کے لئے ذکر ہوئے ہیں وہ اس کے مصادیق ہیں ،یعنی لفظ تحریف مشترک معنوی ہے ایسا نہیں ہے کہ تحریف معانی کے لئے مختلف موضوع لہ
ہوں اور تحریف''مشترک لفظی'' کے طور پر ان میں استعمال ہو۔
دوسرا عتراض
اس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تحریف کے تمام اقسام میں باطل کا عنوان موجود نہ ہو اگران اقسام میں سے کوئی اس عنوان میں داخل ہو جائے تو اس آیہ شریفہ ''ولا یأتیه الباطل من بین یدیه '' کے خلاف ہے کیونکہ اس آیہ شریفہ کی ظاہری دلالت یہ ہے کہ قرآن شریف میں کسی قسم کے باطل کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔