25%

1۔ پہلی دلیل: کتاب میں تحریف کا نہ ہونا ان آیات کے حجت ہونے پر موقوف ہے جبکہ ان آیات کی حجیت تحریف نہ ہونے پر موقوف اس بنا پر تحریف کا نہ ہونا خود تحریف نہ ہونے پر موقوف ہے جو دور ہے۔

2۔ دوسری دلیل: یہ ہے کہ نفی تحریف پرجن آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر مبنی اورموقوف ہے جب کہ دوسری طرف سے نفی تحریف خود ان آیات کی حجیت پر موقوف ہے نتیجتاً آیات کریمہ کی حجیت خود آیات کی حجیت پر موقوف ہے یہ ایسا ناممکن کام ہے کہ جس کو علیت میں  دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو محال ہے ۔اس شبہہ اور اعتراض کے کئی جوابات دئے گئے ہیں    ۔ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں  ۔

پہلا جواب :

مرحوم محقق خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گرانبہا کتاب البیان میں  اس کا جواب یوں  دیا ہے :

''جولوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خلافت اور ولایت کو قبول نہیں    کرتے وہ اس شبہہ اور اعتراض کاجواب دینے سے عاجز ہیں    لیکن جو لوگ ان بزرگواروں  کی خلافت اورولایت کے معتقدہیں    اوران حضرات کو قرآن کریم کے واقعی اور حقیقی مفسر اور قرآن کے قرین سمجھتے ہیں    وہ ایسے شبہہ کا جواب بہت ہی آسان طریقہ سے دے سکتے ہیں    ، کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے موجودہ قرآن کی آیات سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کرام نے جن آیات سے استدلال کیا تھا ان کی تائید اور تصدیق فرمائی ہے ۔ پس اگرچہ قرآن کی تحریف ہوئی ہو پھر بھی اس کی حجیت باقی ہے کیونکہ جہاں  کہیں    ائمہ معصومین علیہم السلام نے آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت ثابت اور واجب العمل ہے ، اور ان سے ہم بھی تمسک کرسکتے ہیں    ۔