25%

تیرہواں مطلب

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟

کیا تحریف کے قائل ہونے کے بعد ہم کتاب کے ظواہر سے استدلال نہیں  کر سکتے ہیں    ؟یہ سوال اس وقت صحیح ہے اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والا علم اجمالی کی رو سے تحریف کا قائل ہو۔

بعضوں  نے کہا ہے کہ'' ایسے مفروضے کی صورت میں جس کسی آیت کی تحریف کا احتمال ہو اسے اہم عقلائی اصل سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو ''عدم قرینہ '' ہے اور ظاہراً آیت سے استدلال کیا جائے دوسرے الفاظ میں تحریف شدہ کتاب کی حجیت کے لئے ہمیں  معصومین علیہم السلام کی تایید کی ضرورت نہیں  بلکہ ہم  اس عقلائی اصل کی روشنی میں ان کے ظواہر سے استدلال کرسکتے ہیں  ''۔ یہ بیان اور جواب اس صورت میں  صحیح ہے اگر عقلاء کسی کلام میں  قرینہ متصلہ یعنی متکلم کے کلام کےساتھ کوئی قرینہ ہونے کا احتمال دیں  پھر اصل عدم قرینہ سے تمسک اور استدلال کرنے کو صحیح سمجھے جبکہ عقلائی تحقیق کے مطابق جہاں  کہیں  کسی کلام میں  مخاطب اور سامع کوئی قرینہ منفصلہ '' یعنی متکلم کے کلام سے الگ کوئی قرینہ '' ہونے کا احتمال دے وہاں  قرینہ کی نفی کے لئے عقلاء عدم قرینہ سے تمسک کرنا صحیح سمجھتے ہیں    لیکن اگر کسی کلا م میں  قرینہ متصلہ ہونے کا احتمال ہو وہاں  اصل عدم قرینہ سے استدلال کر کے اس احتمال کی نفی کرنا صحیح نہیں    ہے اور مسئلہ تحریف پر علم اجمالی کے بعد احتمال کیا ہے کہ شاید کوئی قرینہ ہے جو تحریف کے نتیجہ میں  حذف کیاگیا ہے