لہذا جب آمريت پر مشتمل مختلف اسباب كے تحت بالفاظ ديگرجب تمام چيزيں ايك آمر حاكم كے ارادہ كے تحت وجود ميں آئيں تو ايسے معاشروں كے سماجى معاملات مثلاً اقتصادى ، معاشرتي، سياسى اور بطور كلى اس معاشرہ كى تہذيبى ترقى كى ہم كيسے توقع كرسكتے ہيں _
ايك سماج كلچر و ثقافت كے حوالے سے اسى وقت ترقى كرسكتا ہے كہ جب ترقى كيلئے ضرورى شرائط اور ماحول ميسر ہو _ پس آمريت زدہ معاشروں كے حوالے سے يہ توقع نہيں كى جاسكتى كہ اس معاشرہ كى تہذيب و ثقافت ترقى كرے اور وسعت اختيار كرے يا اگر كسى مسئلہ ميں كوئي ترقى بھى ہوتى ہو تو اس كے ثمرات كى حفاظت ہوسكے _
اسلامى معاشروں ميں آمريت
دين اسلام كے ظہور سے فكر بشريت ميں ايك عظيم انقلاب پيدا ہوا اس الہى دين كا مقصد انسانوں كو ان تمام قسم كى قيد و بند سے نجات دينا تھا جو طول تاريخ ميں اسكو جكڑے ہوئے تھيں _ اسلام حكومتى معاملات ميں فرد واحد كى رائے كو محور بنانے كا مخالف ہے بلكہ مشورہ كو حكومت كى بنياد قرار ديتا ہے _ رسول اكرم (ص) اكثر مسائل ميں اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كرتے تھے اور آنحضرت (ص) كے بعد خلفاء راشدين بھى ايسا رويہ اپناتے تھے كہ لوگ اندرونى رغبت و رضا سے انكى اطاعت كيا كرتے تھے اگر كسى كيلئے كوئي سزا مقرر ہوتى تو وہ اطاعت كرتے اور تعميل كرتے تھے_
ليكن جب بنى اميہ مقام اقتدار پر پہنچے تو بہت سے مسائل تبديل ہوگئے روادارى اور تحمل پر مبنى حكومت كا دور ختم ہوچكا تھا معاويہ كے والى اور حكام كو يہ خوف تھا كہ اگر لوگوں كو آزادى دى گئي تو وہ بغاوت برپا كريں گے لہذا تشدد كى پاليسى شروع ہوئي_ سب سے پہلے معاويہ كا ہى دور تھا كہ جب رسمى طور پر تشدد كا كام شروع ہوا وہ لوگ جو معاويہ كے مخالف سمجھے جاتے تھے اور انہيں گرفتار كركے سزائيں دى جاتى تھيں(۱) _